HIMAYAT ALI SHAYAR حمایت علی شاعر


Himayat Ali Shayar حمایت علی شاعر

حمایت علی شائر حمایت علی شائر کے بارے میں لکھنا گویا’’ہشت پہلو‘‘ شخصیت کو کس چھوٹے سے ڈبے میں محبوس کرنا ہے۔ اُ ن کی زات اور مقام کا تعین کرنا کچھ آسان کام نہیں ۔ ہمہ صفت ،ہمہ جفت،ہمہ رنگ انسان، جس نے زندکی بھر دن و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں بھی نہ صرف راہیں متعین کیں بلکہ ادب کو گرانقدر شاہکار بھی دئے۔ حمایت علی شائر کا نا م سنتے ہی زہن ’’اپنے پرچم تلے۔۔۔ہر سپاہی چلے‘‘ اور ’’جاگ اُٹھا ہے سارا ووطن۔۔۔ساتھیو،مجاہدو!‘‘ جیسے پر جوش کلام اور اُ س کی رزمیہ دھن کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ رگوں میں خون کی گردش تیز کر دینے والے اس کلام ہی کے تخلیق کار نہیں بلکہ’’ ہمت سے ہر قدم بڑھانا۔۔۔تو ہے پاکستانی۔۔۔تجھ سے ہی یہ لک بے گا،دنیا میں لاثانی‘‘ کا درس دینے والا بھی کوئی اور نہیں ،حمایت علی شائرہیں ۔ حمایت علی شائر14جولائی1926ئ کو بھارت کی موجودہ ریاست مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابھی تین برس ہی کے تھے کہ والدہ داغِ مفارقت دے گئیں ، بچپن نا مسائد حالات میں گزرا۔ جب کچھ کرنے کے قابل ہوئے تو مائیکروفون سے رشتہ جوڑ لیااور ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ کیلئے کام کرنے لگے۔1951ئ میں ہجرت کر کے پاکستان آ بسے اور ریڈیو پاکستان، کراچی اسٹیشن سے اپنے براڈ کاسٹنگ کیرئیر کو آگے بڑھایا۔ قدرت نے آپ کو بے تحشا صلاحیتوں سے نوازا، جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے حمایت علی شائر اُردو زبان اور ادب کا ایک بہت بڑا نا م بنے۔ساتھ ہی وہ نغمہ نگار، براڈ کاسٹر،اداکار اور مصنف کے طور پر بھی مستند مقام پا گئے۔حمایت علی شائر نے فلمی شائر ی کو نغمگی اور شائستگی کا انمول رنگ دیا۔ بے شار مقبول گانے اُن کی نوکِ قلم کا شاہکار بنے۔’’ نہ چھڑ ا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے‘‘’’جب رات ڈھلی تم یاد آئے‘‘ ’’کسی چمن میں رہو تم، بہار بن کے رہو‘‘ ’’ہر قدم پر نت نئے سانچے یں ڈھل جاتے ہیں لوگ‘‘ وغیرہ آج بھی کانوں یں رس گھولتے ہیں ۔1966ئ میں اُنہوں نے ایک فلم ’’لوری‘‘ بنائی، جس کے ڈائریکٹر بھی خود ہی تھے،یہ پاکستان فلم اِنڈسٹری کی ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی لوری’’ چندا کے ہنڈولے میں ‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔ اِسی فلم میں مہدی حسن کا گایا ہوا گیت’’ خداوند ، یہ کیسی آگ جلتی ہے سینے میں ‘‘ آج بھی ساعتوں کو متاثر کرتا ہے۔حمایت علی شائر کا کلام کئی دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گےا ہے۔ حمایت علی شائر کے طبع زاد کام کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں مگر اُن کی تخلیق و تالیف کا بھی ایک طویل سلسلہ ہے۔ خصوصی پی ٹی وی(PTV) کے لیے تحقیق پر مبنی معرکہ آرائ پروگراموں کی ایک طویل فہرست ہے۔’’عقیدت کا سفر‘‘ میں نعت گوئی کی سات سو سالہ تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔’’ پاکستان میں نعتیہ شائری کی 50سالہ تاریخ‘‘ ’’ غزل اس نے چھیڑی‘‘ میں اردو شائری کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔’’ خوشبو کا سفر‘‘ میں پاکستان کے مقامی شعرائ کے اُردو کلا م کا جائزہ لیا گیاہے۔ ’’محبتوں کے سفیر‘‘ میں سندھ میں اُردو شائری کا ارتقائ بیان ہوا ہے جبکہ ’’لبِ آزاد ‘‘ میں احتجاجی شائری کی تاریخ پر نظر ڈالی گئی ہے۔ سرمئی کلر کی شلوار قیض پر کالی واسکٹ اور آنکھوں پر سیاہ فریم کا چشمہ۔۔۔ حمایت صاحب کی شخصیت کا کاخاصہ تھے۔ لبوں پر ایک مخصوص مسکراہٹ رکھنے والے حمایت علی شائر کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ قدرت نے ہر شعبہ ین کامیابی اُن کا مقدر کر دی ہے ۔ اُنہی کا مصر ہے’’ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘‘ یہ بات خود حیت صاحب کے سے بہت ہی مثبت انداز میں سامنے آئی۔ وہ گس روپ میں بھی سامنے آئے، لوگوں کا دل جیت لیا۔ انعات اور ایوارڈز کا بھی طویل سلسلہ ہے۔ نگار ایوارڈ سے لے کر ’’ پرائیڈ آف پرفارنس‘‘ تک سبھی اُن کی جھولی میں پکے ہوئے آم کی طرح آن گرِے۔ اں کے پہلے شعری مجموعے ’’آگ میں پھول‘‘ نے 1958ئ میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ دوسرے شعری مجموعے ’’ہارون کی آواز‘‘ پر علامہ اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ ’’تشنگی کا سفر‘‘ اور ’’ مٹی کا قرض‘‘ بھی اُن کی معرکہ آرائ تصانیف ہیں ۔ دیگر مجموعہ ہائے کلام میں ’’ تجھ کو معلوم نہیں ‘‘ ’’چاند کی دھوپ‘‘ ’’ثلاثیاں اور ہائیکو‘‘ شامل ہیں ۔ اُن کے مطبوعہ کلام کا مجموعہ ’’کلیاتِ شائر‘‘ بھیہ شائع ہو کر سخن شناسوں سے داد وصول کر چکا ہے۔ بحیثیت اُستاد بھی حمایت علی شائر ایک مشفق انسان کے روپ میں طلبائ کے لیے تعلیم و تربیت کا منبع رہے۔ بیگم کے مشورے پر1976ئ میں فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔

No comments:

Post a Comment